مقصد حیات

یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ مجھے یہاں کچھ کہنے کا موقع ملا۔ اور میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک لیکچر نہیں ہے ۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں لیکچر کی تیار ی کر کے آیا ہوں۔ لیکن یہ ایک قسم کی ۔۔۔ نصیحت ہے میرے لیے بھی۔ کیوں کہ میں نے خود اپنے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھا ہے ۔ صرف چند ہی دنوں پہلے ، چند سالوں پہلے، کچھ لمحوں پہلے – میں بالکل یہیں بیٹھا تھا جہاں آپ بیٹھے ہیں۔ عیسائی، غیر مسلم ، کوئی بھی قومیت – اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک انسان جو کہ اسلام سے واقف نہیں ہے۔ اور کسی لمحے پر، میں بھی ایک تھا جو حقیقت میں زندگی گزارنے کا مقصد نہیں جانتا تھا۔

یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ مجھے یہاں کچھ کہنے کا موقع ملا۔ اور میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک لیکچر نہیں ہے ۔۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں لیکچر کی تیار ی کر کے آیا ہوں۔ لیکن یہ ایک قسم کی ۔۔۔ نصیحت ہے میرے لیے بھی۔ کیوں کہ میں نے خود اپنے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھا ہے ۔ صرف چند ہی دنوں پہلے ، چند سالوں پہلے، کچھ لمحوں پہلے – میں بالکل یہیں بیٹھا تھا جہاں آپ بیٹھے ہیں۔ عیسائی، غیر مسلم ، کوئی بھی قومیت – اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک انسان جو کہ اسلام سے واقف نہیں ہے۔ اور کسی لمحے پر، میں بھی ایک تھا جو حقیقت میں زندگی گزارنے کا مقصد نہیں جانتا تھا۔

یہ میری ذمہ داری ہے کہ آج کی بحث کا موضوع میں آپ کو بتاؤ – ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ اور میں آپ سے سوال کرنا چاہوں گا کہ آپ اسلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ میرا مطلب ہے کہ – کیا آپ واقعی اسلام کو جانتے ہیں؟ نہیں ، کیا سنا ہے آپ نے اسلام کے بارے میں؛ نہیں، کیا دیکھا ہے آپ نے کچھ مسلمانوں کو کرتے ہوئے، لیکن کیا جانتے ہیں آپ اسلام کے بارے میں؟

یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے موقع ملا کہ میں شروع کرو اس بات سے کہ آپ سب کی برابر ذمہ داری ہے ۔۔۔ اور یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ پڑھیں اور سنیں۔

یہ دنیا تعصب اور تہذیبی رسم و رواج میں ڈوبی ہوئی ہے یہ کسی انسان کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ کچھ لمحات سوچنے کے لیے نکالے۔ اپنی زندگی کے مقصد کے بارے میں سوچے ۔ کوشش کرے کہ ہماری حقیقی زندگی کے مقصدکو اور سچائی کو اس دنیا کے سامنے لائے ۔ بدقسمتی سے جب ہم بہت سے لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ “آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے”، جو کہ ایک بنیادی اور اہم سوال ہے، وہ آپ کو نہیں بتائیں گے کہ کیا ان کے اپنی زندگی کے بارے میں مشاہداتی اور تجزیاتی وجوہات کے نتائج ہیں۔ بہت بار تو یہ یقیناً آپ کو کہیں گے کہ فلاں یہ کہتا ہے اور فلاں یہ کہتا ہے اور آپ کو بتائیں گے عام طورپر لوگ کیا سمجھتے ہیں۔ میرے والدکہتے تھے کہ زندگی کا مقصد وہی ہے جو پادری زندگی کا مقصد بتائے جو میرے اساتذہ اسکول میں بتائیں یا جو میرے دوست بتائیں۔

اگر میں کسی سے کچھ کھانے کا مقصد پوچھوں ، “کیوں ہم کھاتے ہیں؟” بہت سے لوگ صرف ایک لفظ میں جواب دیں گے کہ “یہ ہماری غذا ہے” کیوں کہ غذا ہماری زندگی کو قائم رکھتی ہے۔ اگر میں کہوں کہ “ہم کیوں کام کرتے ہیں”، وہ کہیں گے کہ کیوں کہ یہ ضروری ہے ہمارے لیے اور اس کے ذریعے ہم اپنی اور اپنے کنبے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ اگر میں کسی سے پوچھوں کہ وہ کیوں سوتے ہیں، وہ کیوں نہاتے ہیں، وہ کیوں کپڑے پہنتے ہیں وغیرہ وغیرہ وہ جواب دیں گے کہ – “یہ عام ضروریات تمام انسانوں کے لیے۔” ہم اس طرح کے سینکڑوں سوالات پوچھ سکتے ہیں اور کسی بھی زبان میں اور دنیا میں کسی بھی جگہ ہر ایک سے ایک ہی جیسے جوابات حاصل ہوں گے ، بالکل اسی طرح کہ جب ہم سوال کرتے ہیں کسی سے کہ زندگی کا حاصل اور زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تو ہم کیوں مختلف جوابات حاصل کرتے ہیں؟ کیوں کہ لوگ الجھے ہوئے ہیں، وہ حقیقت میں نہیں جانتے، وہ اندھیروں میں بٹھک رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ بتائیں کہ ہم نہیں جانتے وہ ایسے جوابات دیتے ہیں جو ایسا لگتا ہے کہ پہلے سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔

چلیں اس بارے میں سوچتے ہیں۔ کیا اس دنیا میں ہماری زندگی کا مقصد صرف کھانا، سونا ، لباس پہننا، کام کرنا ، کچھ حاصل کرنا اور خود کو خوش رکھنا ہے؟ کیا یہی ہمارا مقصد ہیں؟ ہم کیوں پیدا ہوئے؟ ہمارے ہونے کا مقصد کیا ہے؟، اور کیا راز چھپاہے اس مخلوق کو پیدا کرنے اور اس زبردست کائنات کو تخلیق کرنے میں ؟ ان سوالوں کے بارے میں سوچئیے!

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی خدا کی حقیقت ہے، یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کہیں خدا ہے، اس بات کے بھی ثبوت نہیں ہیں کہ یہ کائنات وجود میں آنے کا خدا کو کوئی مقصد ہے۔ جو لوگ اس طرح سوچتے ہیں – اور جو کہتے ہیں کہ دنیا ایسے ہی وجود میں آگئی۔ بس ایک بہت بڑا دھماکہ – اور اتنی زبردست دنیا اپنی تمام مخلوقات اور خوبصورتی کے ساتھ وجود میں آگئی۔ اور وہ کہتے ہیں زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے اور یہ کہ یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ خدا ہے یا کوئی مقصد یا کوئی خدا کا مقصد ہے اس دنیا کو وجود میں لانے کے لئے چاہے منطق یا سائنس سے ۔

یہاں میں قرآن پاک کی چند آیا ت پڑھنا چاہوں گا جو کہ ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔

” آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ جو الہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔”

(قرآن سورۃ 3: آیات نمبر 190-191)

اوپر دی گئیں آیات میں، الہ تعالٰی بالکل صاف طریقے سے ذکر کرتا ہے،وہ پہلے ہماری توجہ ہماری تخلیق کی طرف دلاتا ہے۔ انسانی جسم کے مختلف حصے ، اور لوگوں کی مختلف سوچ اور انداز۔ وہ ہماری توجہ جنتوں کی طرف دلاتا ہے، دن اور رات کے بدلنے کی طرف ، ستاروں کی طرف، آسمان کی طرف اور اجزام فلک کی طرف اور پھر وہ کہتا ہے کہ اس نے یہ سب چیزیں کسی بیوقوفانہ مقصد کے لیے پیدا نہیں کی ہے۔ کیوں کہ جب آپ اس کی حکمت کو دیکھتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ اس کی حکمت کتنی زیادہ طاقت ور اور کتنی زبردست ہے اور کچھ اس کی حکمت عملی جوبہت طاقتور اور بہت زبردست ہے ، ہماری سوچ اور ہمارے اندازوں سے باہرہو تی ہے، یہ کوئی بیوقوفی یا پاگل پن نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ بس ہو گیا۔

فرض کریں کہ اگر آپ دس ماربل کے ٹکڑے لیں اور انہیں ایک سے دس تک نمبر دیں اور تمام مختلف رنگوں کے ہوں ۔ اور آپ انہیں تھیلے کے اندر رکھیں اور پھر تھیلے کو ہلائیں اور پھر آپ اپنی آنکھیں بند کریں اور تھیلے میں جائیں اور میں آپ سے کہوں کہ پہلا ماربل کا ٹکڑا نکالیں اور پھر دوسرا نمبر والا اور پھر تیسرے نمبر والا ٹکڑا نکالیں ایک ترتیب کے ساتھ۔ آپ کو کتنا امکان ہے کہ آپ یہ ماربل نمبروں کی ترتیب سے نکال لیں گے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کتنی بار میں یہ کرسکتے ہیں۔چھبیس ملین میں سےایک بار! تو کتنے امکانات ہیں جنتوں کے ۔اور زمین پھینکی جانے کے، زبردست دھماکے کےاور تمام آرائشیں جو ہمیں حاصل ہیں؟ کتنے امکانات ہیں ان تمام چیزوں کے؟

میرے قابل احترام دوستو! ہمیں اپنےآپ سے ایک اور سوال کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ جب آپ پل دیکھتے ہیں، ایک عمارت یا ایک چلتی گاڑی دیکھتے ہیں تو آپ خود بخود سمجھ جاتے ہیں کہ کس شخص یا کس کمپنی نے یہ بنائی ہوگی۔ جب آپ ایک ہوائی جہاز، راکٹ، سیٹیلائٹ یا ایک بڑا پانی کا جہاز دیکھتے ہیں – آپ بھی سوچتے ہیں کہ یہ کیسی ناقابل یقین سواریاں ہیں۔ جب آپ دیکھتے ہیں ایک نیوکلئیر پلانٹ ، مدار میں خلائی اسٹیشن، ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ جو تمام چیزوں سے مزین ہو، یہ بھی اور دوسری چیزیں جو پائی جاتی ہیں اس ملک میں آپ ان تمام چیزوں کی انجینئرنگ کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتے۔

یہ تو بس چیزیں تھیں جو کہ بنی نوع انسان نے بنائیں تھیں۔ انسانی جسم اور اس کے بڑے اور الجھے ہوئے نظام کے بارے میں کیا خیال ہے؟ذرا اس بارے میں سوچئے! سوچئے دماغ کے بار ے میں کیسے وہ سوچتا ہے، کیسے وہ کام کرتا ہے، کیسے وہ تجزیہ کرتا ہے، کیسے وہ محفوظ کرتا ہے، معلومات حاصل کرتا ہے، علیحدہ کرتا ہے اور درجہ بندی کرتا ہے معلومات کی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اور دماغ مستقل یہ تمام چیزیں کرتا رہتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے ایک دماغ کے بارے میں سوچئے۔ یہ دماغ ہی ہے جو خودکار گاڑیاں بناتا ہے، راکٹ، کشتی، اور بہت بہت کچھ۔ ذرا دماغ اور جو وہ بناتا ہے اس کے بارے میں سوچئے۔ دل کے بارے میں سوچئے، کیسے وہ مستقل ساٹھ سے ستر سالوں تک پمپ کرتا ہے اور پورے بدن سے خون لیتا اور چھوڑتا رہتا ہے اور کیسے جسم کو قائم رکھتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی مستحکم رہتی ہے۔ ذرا اس بارے میں سوچئے! ذرا اس بارے میں سوچئے! گردوں کے بارے میں سوچئے کہ وہ کیسے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔یہ جسم کے آلات کو صاف رکھتا ہے، جو کہ بیک وقت سینکڑوں کیمیائی تجزیہ کرتے ہیں اور خون میں زہر کی مقدار کوقابو میں رکھتے ہیں۔ اپنی آنکھوں کے بارے میں سوچئے – انسانی کیمرہ خود بخود فوکس کرتا ہے، آنکھین ترجمانی کرتی ہیں، اندازے لگاتی ہیں، اور خود سےرنگوں کو پہچانتی ہیں۔ قدرتی طور پر روشنی اور فاصلے کی پہچان اور اندازہ کرنا – یہ تمام چیزیں خود بخود کام کرتی ہیں۔ ذرا اس بارے میں سوچئے – کس نے یہ بنائیں ہیں؟ کون ان کا مالک ہے؟ کس کی یہ حکمت ہے؟ اور کس نے انہیں ترتیب دیا ہے؟ کیا انسانوں نے خود ؟ نہیں ۔۔۔ بے شک نہیں۔

یہ کائنات کیا ہےَ؟ ذرا اس بارے میں سوچئے ۔ زمین ہمارے شمسی نظام کا ایک سیارہ ہے اور ہمار ا نظام شمسی ایک نظام ہے کہکشاں کا اور کہکشاں ایک ستاروں کا جھرمٹ ہے بہت سی کہکشاؤں میں۔ ذرا سوچئے کہ یہ تمام چیزیں ایک ترتیب میں ہیں یہ تمام صحیح کام کررہی ہیں۔ یہ آپس میں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور نہ ہی ان کا آپس میں تصادم ہوتا ہے۔ وہ اپنے مدار کے ساتھ تیرتی ہیں جیسے وہ اس کے لئے ہیں۔ کیا انسان اس طرح کی حرکت میں رہ سکتا ہے ؟ کیا انسان باقاعدگی سے یہ سب کرسکتا ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔

سمندر کے بارے میں سوچئے، مچھلی، کیڑے مکوڑے، پرندے، پودے، بیکٹریا، کیمیائی اجزاء جو کہ ابھی دریافت نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کا پتہ لگایا جاسکتا ہے بغیر جدید ترین آلات کے ۔ یہاں تک کہ ہر ایک کے لئے قانوں ہے جس کی وہ پابندی کرتے ہیں۔ کیا یہ تمام ٹھیک طریقے سے، ہم آہنگی سے ، تبدیلی سے، قائم رہتے ہوئے ، کچھ کرتے ہوئے، حرکت کرتے ہوئے اور بہت سے ان گنت کام کرتے ہیں۔کیا یہ سب بس ایسے ہی ہوگیاَ ؟ اور یہ بھی کہ کیا یہ سب مستقل اور بہترین طریقے سے صرف قسمت پر چل رہا ہے۔ اور کیا ان کی افزائش نسل اور ان کو خود قائم رکھنا صرف ایک قسمت ہے؟ نہیں، بے شک نہیں۔

سوچیں تو یہ بہت غیر منطقی اور بیوقوفانہ لگے گا لیکن بہت چھوٹا سا آپ کو اشارہ ضرور دے گا کہ بہرحال یہ کہا ں سے آئے۔ یہ انسان کی سوچ کی سلطنت سے بالکل باہر ہے۔ ہم سب اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جو چیز قابل فخر اور جو قابل ہے اس کا شکرادا کیا جائے وہ جس کے پاس تمام قوتیں ہیں وہ خدا ہے۔ خدا نے یہ سب پیدا کیا اور وہ ان تمام مخلوقات کے قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ بہرحال، خدا صرف ایک ہے جو قابل تعریف اور جس کا شکر ادا کیا جائے۔

اگر میں سے ہر ایک کو ایک سو ڈالر دوں بغیر کسی وجہ کہ صرف یہاں آنےپر، آپ میرا کم از کم شکریہ ادا کریں گے۔ تو آنکھوں کے بارے میں کیا، آپ کے گردے، آپ کا دماغ، آپ کی زندگی، آپ کی سانس اور آپ کا آپ کے بچوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس بارے میں آپ کیاجانتے ہیں ؟ کس نے دیں ہیں یہ آپ کو؟ کیا وہ سراہنے یا شکریہ کہلانے کا حق دار نہیں ہے؟ کیا وہ آپ سے اپنی عبادت کروانے اور اپنے آپ کو منوانے کا حق دار نہیں ہے؟ میرے بھائیوں اور بہنوں، دوسرے لفظوں میں یہ ہے مقصد اور حاصل زندگی کا۔

الہ تعالٰی قرآن پاک میں فرماتا ہے :

“میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں”

(قرآن سورۃ نمبر 51 ، آیات 56)

یہ ہے جو کہا الہ تعالٰی نے۔ تو ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ ہم اپنے بنانے والے کو پہچانیں اور اس کے احسان مند ہوں۔ خالق کی عبادت کریں۔ ہم اپنے آپ کو اس کے سامنے جھکا لیں اور اس کے قوانیں کی پیروی کریں جو اس نے ہمیں دیئے ہیں۔ مختصر الفاظ میں اس کا مطلب عبادت ہے۔ یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ اور اس عبادت کو کرنے کے لئے ہم کیا کریں گے، کھائیں گے، پیئے گے، کپڑے پہنیں گے، کام کریں گے، مزے اڑائیں گے اپنی زندگی سے موت کے درمیان۔ یہ سب تو لازمی ہیں ہی۔ ہم کو پیدا کیا گیا ہے عبادت کے لیے یہ ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیئے۔ میرا ایمان ہے کہ کوئی بھی جو کہ سائنسی یا تجزیاتی علم رکھنے والا اس مقصد سے متفق ہوگا۔ لوگوں کے ہوسکتا ہے اور دوسرے مقاصد بھی ہوں لیکن کچھ ہے جو ان کے اور خدا عظیم کے درمیان چل رہا ہے۔

اب ہم موضوع کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔ آپ اسلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ نہیں، کیا آپ نے اسلام کے بارے میں سنا ہے۔ نہیں ، کیا آپ نے دیکھا مسلمانوں کو عمل کرتے ہوئے کیونکہ اسلام اور مسلمانوں میں بڑا فرق ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ جس طرح ایک باپ اور ایک آدمی۔ ایک آدمی جس کے بچے ہوں – وہ ہے ایک باپ، لیکن باپ ہونے کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں ہیں۔اگر ایک آدمی اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا ہے تو یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ ایک اچھا باپ نہیں ہے۔ اسلام ایک حکم اور قانون ہے۔ اگر ایک مسلمان اس حکم کی پابندی نہیں کرتا اور قانون پر عمل نہیں کرتا تو وہ اچھا مسلمان نہیں ہے۔ لہٰذااسلام کو مسلمانوں کے لحاظ سے نہ دیکھیں۔

ہم نے اکثر اسلام اور مسلمانوں جیسے الفاظ سنیں ہیں۔ اور ہم اپنے رسالوں، کالیجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب کی کتابوں میں اسلام کے بارے میں پڑہتے ہیں۔ ہم نے بہت سی غلط باتیں، گمراہ کن اورجانتے بوجھتے جھوٹی خبریں جو کہ پھیلائی گئیں ذرائعے ابلاغ )میڈیا( کے ذریعے سنی اور دیکھیں ۔ اور میں اس بات کو مانتا ہوں کہ کچھ اس طرح کی غلط معلومات اور غلط بیانی ہمیشہ خود مسلمان بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اس دنیا میں پانچ عرب مسلمان ہیں، ہر پانچ لوگوں میں سے ایک مسلمان ہے۔ یعنی اس دنیا میں ہر پانچ لوگوں میں ایک مسلمان۔ یہ شماریات ہے آپ اس کی تصدیق انسائیکلوپیڈیا یا المانک یا دوسرے ذرائع جس سے بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک شخص مسلمان ہو اور ہم کہیں کہ اسلام کی حقیقت کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے؟ اگر میں آپ سے کہوں کہ اس دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک شخص چینی تھا، جو کہ حقیقت ہے – ایک عرب چینی دنیا میں ہیں۔ ہر پانچ لوگوں میں ایک چینی ہے۔ تو آپ جانتے ہیں چین اور چینی لوگوں کے جغرافیائی، معاشی ، معاشرتی، سیاسی ، فلسفیائی اور تاریخ کو۔ تو کیسے ہم اسلام کے بارے میں نہیں جانتے؟

کیا ہے یہ تعلق جو جوڑتا ہے مختلف قوموں اور اس کائنات کی ترتیب کو ایک برادری میں؟ جو میرے بہن بھائی یمن میں بناتا ہے جب کہ میرا تعلق امریکہ سے ہے اور جو مجھے بھائی بناتے ہیں میرے بھائی بہن وہ ایریٹیریا سے ہیں اور ایک دوسرا بھائی انڈونیشیا میں ہے ۔ اور بھائی افریقہ سے اور دوسرا ایک بھائی تھائی لینڈ سے اور اٹلی سے، یونان، پولینڈ، آسٹریا، کولمبو، بولوویا، کوسٹا ریکا، چین، اسپین سے، روس سے اور بہت سے۔ کیا ہے جس نے ان کو میری بہن اور میرا بھائی بنایا؟ ہم مختلف تہذیبوں اور نفسیاتی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں! کیا ہے اسلام میں جو ہمیں خود بخود قبول کرتا ہے اور ہمیں بھائی چارے میں جوڑ دیتا ہے؟ اصل وجوہات کیا ہیں زندگی کے بارے میں غلط فہمی کی جو کہ لوگوں بڑی تعداد میں ہے۔

میں کوشش کروں گا کہ کچھ حقیقتیں آپ کے سامنے رکھ سکوں۔ لیکن اس کے ساتھ، جیسے میں نے پہلے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ آپ کھلا ذہن اور کھلا دل رکھین کیوں کہ اگر میں گلاس کو الٹا رکھ کر اس پر پانی انڈیلوں تو میں کبھی بھی گلاس میں پانی حاصل نہیں کر سکتا اس کو سیدھا کرنا پڑے گا۔ صرف حقیقتوں سے ہی بات سمجھ میں نہیں آتی ہےاس کے ساتھ برداشت ، حوصلہ ، سراہنے کا جذبہ اور سچائی کو قبول کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے جب بھی آپ سنیں۔

لفظ ‘اسلام’ کا مطلب ہے، مغلوب ہونا، تسلم میں سر جھکا لینا، فرمابرداری کرنا۔ مغلوب ہوکر، سر جھکا کر عظیم خدا کی فرمانبرداری کرنا۔ آپ اسے ‘الہ’ کہہ سکتے ہیں، خالق کہہ سکتے ہیں۔ عظیم خدا کہہ سکتے ہیں۔ عظیم طاقت کہہ سکتے ہیں اور ایسے جتنے اچھے نام ہیں سب اسی کے ہیں۔

مسلمان خدا کے لئے عربی لفظ الہ استعمال کرتے ہیں کیوں کہ عربی میں اس کے کوئی دوسرا مطلب نہیں ہے۔ لفظ الہ کسی بھی مخلوق پر نہیں رکھ سکتے البتہ ‘عظیم’ جیسے دوسرے الفاظ لوگ مخلوق کے لئے استعمال کرتےہیں۔ مثال کے طور پر جیسے “سب سے بڑا ڈالر”، “اوہ میں اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہوں وہ سب سے اوپر ہے!” یا وہ عظیم ہے۔” نہیں نہیں نہیں نہیں ۔۔۔ لیکن لفظ الہ صرف ایک پر ہی لاگو ہوتا ہے جس نے سب کو پیدا کیا جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ یہاں سے میں لفظ الہ کے استعمال کی طرف جاتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ ہم کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

لفظ ‘اسلام ‘ لیا گیا ہے ‘سلامَہ’ کی جڑ سے جس کا مطلب ہے امن۔ ایک مسلمان ایک شخص ہے جو کہ مغلوب ہوتا ہے، تسلیم کرتا اور فرمانبرداری کرتا ہے عظیم خدا کے قانون کی اور اسے ان تسلیمات سے امن و سکون حاصل ہوتا ہے۔ہم جلد دیکھے سکیں گےاس تشریح سےکہ عربی لفظ’اسلام ‘ ہمیں بتاتا ہے وہی طریقہ اور اخلاق ، جو بتایا تھا مشہور اور قابل احترام الہ کے رسولوں اور پیغمبروں نے۔

ان میں آد م ، نو ح ، ابراہی م ، داؤ د ، سلیما ن ، اسحا ق ، اسماعی ل، یوس ف ، یحییٰ،سلیما ن، مریم کے بیٹے عیسٰی اور محمد۔ یہ تمام رسول اور پیغمبرایک ہی الہ کی طرف سے بھیجے گئے اور ایک ہی پیغام لے کر آئے ان سب کا بات کرنے کا ایک ہی انداز تھا اور یہ کہتے تھے صرف ایک چیز – الہ کی فرمانبرداری کرو! عظیم الہ کی عبادت کرو ، زندگی کا مقصد پورا کر و اور اچھے کام کرو تو آپ کو اس کا بدلہ دوسری زندگی میں ملے گا۔ یہ تمام کہتے تھے کہ اس سے آگے کچھ نہیں کرنا اس سے بجز کہ ان کی زبان کیا تھی اور کس وقت تھے اور کس نے انہیں بھیجا ، وہ سب کہتے یہی تھے۔

اگر آپ صحیفےتھوڑا خیال سے بغیر اپنی سوچ کو یا کسی دوسرے کے کئے گئے اضافے کو یا جھوٹ کو شامل کئے پڑھیں- تو آپ پائیں گے کہ یہ ایک سادہ پیغام تھا تمام پیغمبروں کا جس کی ایک سے دوسرے نے تصدیق کی۔ ان پیغمبروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ جس نے کبھی کہا ہو کہ میں خدا ہوں میری عبادت کرو۔ آپ اپنی پاک کتابیں دیکھ لیں آپ کسی کتاب میں نہیں پائیں گے نہ تو انجیل میں، نہ تورات میں، نہ عہدنامے میں، نہ زبور میں، آپ کسی کتاب میں نہیں پائیں گے۔ آپ کسی پیغمبر کی تقریر میں نہیں پائیں گے۔ آپ گھر جائیں رات میں اور انجیل کے تمام صفحات پلٹ کر دیکھیں اور میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ آپ کہیں نہیں پائیں گے۔ کہیں بھیً ! تو یہ کہاں سے آیا؟ یہ ہے جس کی آپ کو تحقیق کرنا پڑے گی۔

اس وضاحت سے ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ عربی لفظ جو ہمیں بتاتا ہے وہ پیغمبروں نے کر کے دیکھایا۔ وہ تمام آئے اور خود کو الہ کے سامنے پیش کردیا۔ الہ کا غلبہ خود پر چڑھا لیا، لوگوں کو الہ کی طرف بلایا ، لوگوں کو کہتے رہے اور اصرار کرتے رہے کہ نیک کام کریں۔ موسٰی کے دس احکامات – وه کیا تھے ؟ ابراہیم کی تقریر – وه کیا تھی ؟ داؤد کی زبور – وه کیا تھی ؟ سلیما ن کی مثالیں – کیا کہا تھا انہوں نے؟ عیس ی کی گوسپل – انہوں نے کیا کہا؟ یٰحیٰ نے کیا کہا تھا؟ اسحا ق نے کیا کیا اور اسماعی ل نے کیا کہا؟ محمؐدنے کیا کہا؟ اس سے زیادہ کچھ نہیں!

” انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف الہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا”

(قرآن سورۃ نمبر 98، آیت 5)

الہ تعالی فرماتا ہے کہ”وہ کوئی حکم نہیں دیتے سوائے اس کے کہ الہ کی عبادت کی جائے، خالص اس کے بن کے رہو اور یہی سیدھا راستہ ہے۔ یہ اصل پیغام تھا ۔ اسی طرح، یہ بہتر ہوگا کہ ہم سمجھیں رسولوں اور پیغمبروں کو مسلمانوں کی طرح ۔ کیوں کہ ، ایک مسلمان کیا ہے؟ عربی اصطلاحات کو چھوڑیں، یہ بھی نہ سوچیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں، مکہ کے بارے میں یا سعودی عرب یا مصر کے بارے میں نہ سوچیں! نہیں! سوچیں لفظ مسلمان کا کیا مطلب ہے ۔ “جو خود کو عظیم الہ کے سپرد کردے اور عظیم الہ کے قوانین پر عمل کرتا ہے”، اس میں چاہے سپردگی قدرتی ہو یا مادی طور پر – ہرطرح سے جو الہ کے قوانین کے آگے سرتسلیم کرے وہ مسلم ہے۔

تو جب ایک بچہ اپنی ماں کی کوک سے باہر آتا تو اس وقت الہ کا حکم ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ وه ایک مسلمان ہے۔ جب سورج اپنے مدار کے گرد گھومتا ہے تووہ کیا ہے ؟ وه ایک مسلمان ہے! کشش ثقل کا قانون – وه کیا ہے؟ وہ ایک مسلمان ہے! ہر وہ چیز جو خود کو عظیم خدا کے سپرد کرتی ہے وہ مسلمان ہے! لہٰذا جب ہم اپنی مرضی سے عظیم خدا کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو ہم مسلمان ہیں! یسوع مسیح ایک مسلمان تھے۔ ان کی مہربان ماں مسلمان تھیں۔ ابراہیم مسلمان تھے، موسٰ ی ایک مسلمان تھے۔ تمام پیغمبر مسلمان تھے! لیکن وہ اپنے لوگوں میں آئے اور وہ مختلف زبانیں بولتے تھے۔ حضرت محمدؐ عربی زبان بولتے تھے۔ تو عربی زبان میں جو شخص خود کو سپرد کردے اور پیش کردے وہ مسلمان ہے۔ الہ تعالی کا ہر رسول اور پیغمبر بالکل ایک جیسا لے کر آئے اور یہ بنیادی پیغام ہے کہ “عظیم خدا کی عبادت کرو اور خلوص کے ساتھ اس کے ہوجاؤ”۔ اسی طرح ہم ہر مشہور رسول کے پیغام کا موازنہ کریں تو ہم اس حقیقت کو پالیں گے۔

یہاں فرق ہے، یہ نتیجہ ہے مصنفوں ، تاریخ دانوں ، اسکالروں اور افراد کی مجرمانہ جھوٹے اندراج کا، ملاوٹ کا، ذاتی ترجمانی کا ۔ مثال کے طور پر میں نے جیسے آپ کو واضح کرتا ہوں جو کہ آپ پہلے ہی جانتے ہیں۔ ایک عیسائی کی حیثیت سے میں نے اسے دیکھا میرے مسلمان ہونے سے پہلے اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ کیسے پورے پرانے عہدنامے میں خدا کو ہمیشہ ایک کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔ آقا اور مالک اور کائنات کا بادشاہ اور یہی پہلا حکم موسٰ ی کو دیا گیاتھا ۔ وہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی تراشی ہوئی شبیہ کی عبادت کی جائے یا جنت میں کسی چیز کے سامنے جھکا جائے یا زمین پر یا سمندر میں۔ وہ (خدا) ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ تمام رسولوں نے کہا کہ خدا صرف ایک ہے۔ پورے پرانے عہدنامے میں اس بات کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ اور پھر اچانک ہم چار عہدنامے پاتے ہیں – جو کہ چار گوسپل کہلائی جاتی ہیں میتھیوو، مارک، لیوک اور جان۔ میتھیوو کون ہےَ؟ مارک کون ہے؟ لیوک کون ہے؟ جان کون ہے۔ چار مختلف گوسپل جو کہ اڑتالیس سالوں میں لکھی گئیں تھیں، اور ان میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کی اور نہ ہی ان میں سے کسی نے بھی اپنے نام کا آخری حصہ لکھا ہے۔ اگر میں آپ کو اس مہینے کی تنخواہ کا چیک دوں اور میں اس پر اپنا نام کا پہلا حصہ لکھوں اور کہوں کہ اس سے بینک لے جاؤ- کیا آپ اس چیک کو قبول کریں گے؟ نہیں، آپ نہیں کریں گے۔ ۔۔ اگر پولیس والا آپ کو روکے اور آپ سے آپ کی شناخت معلوم کرے یا پاسپورٹ مانگے اور آپ صرف اسے اپنے نام کا پہلا حصہ بتائیں، کیا وہ اسے مان لے گا؟ کیا اپنے نام کے پہلے حصے والا پاسپورٹ لے لیں گے؟ کیا آپ کے والدین آپ کو صرف ایک ہی نام دیتے ہیں؟ کہاں پرانسانوں کی تاریخ میں ایک نام کو دستاویزات میں شامل کیا گیا ہے۔ کہاںَ ؟ِ کہیں نہیں سوائے نئے عہدنامے کے!

اور کیسے آپ ان چار گوسپل پر ایمان رکھ سکتے ہیں جو چار اشخاص نے لکھی ہیں جن کے نام کا آخری حصہ کہیں معلوم ہوتا دیکھائی نہیں دیتا؟ پھر، ان چار گوسپل کے بعد ، ایک شخص نے پندرہ مزید کتابیں لکھیں جو کہ ایک مرتد تھا اور اس نے عیسائیوں کو قتل کیا، ان پر تشدد کیا اور پھر اس نے کہا کہ اس کے تصور میں یسوع مسیح آئے تھے اور وہ مختار تھا جیسے ایک یسوع کا رسول )اپسٹل آف جیسس(۔اگر میں آپ کو بتاؤ کہ تمام یہودیوں کو مارنے کے بعد ہٹلر نے فیصلہ کیا کہ اسے جان بچانے کے لئے جگہ چاہیے اور تو وہ عیسیٰ سے یا موسٰی سے ملا اور یہودی ہوگیا۔ اور اس نے پندرہ کتابیں لکھیں اور ان کو تورات میں شامل کردیا کیا یہ یہودیوں کے لئے قابل قبول ہو گا ؟ نہیں، آپ اسے قبول نہیں کریں گے۔ تو کیسے جنہوں نے چار کتابیں لکھیں بغیر اپنے نام کے آخری حصے کے اور پندرہ دوسری کتابیں لکھی گئیں ایک دوسرے شخص سے – ان میں پہلی دفعہ خدا ایک شخص )انسان( کہلایا، اور پہلی دفعہ خدا تین میں کہلایا اور پہلی ہی دفعہ خدا نے بیٹا دیا تھا۔یہ کیسے عیسائیوں کے لئے قابل قبول ہے؟ کیسے ؟ ذرا اس بارے میں سوچئیے! میں اس نقطہ پر بحث نہیں کروں گا۔ میں صرف آپ کو سوچنے کے لیے کچھ دینا چاہتا ہوں۔

حضرت محمد نہ تو نیا مذہب لے کر آئے تھے یا نہ ہی زندگی کی نئی راہ جسے کچھ لوگ بدشگونی کا دعوہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، حضرت محمدؐ نے پچھلے تمام رسولوں اور پیغمبروں کے پیغامات اور ان کی زندگی کی تصدیق کی ۔ دونوں کو اپنے ذاتی عمل کے ذریعے اور جو انہیں الہ کی جانب سے وحی کی جاتی تھی۔ مقدس کتاب جو حضرت محمدؐ لے کر آئے جسے قرآن کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے “جس کی تلاوت کی جائے”۔ کیوں کہ محمدؐ نے قرآن نہیں لکھا تھا۔ وہ قرآن کے مصنف نہیں تھے۔ کوئی قرآن کو لکھنے میں ان کی مدد کو نہیں آیا تھا اور نہ ہی اس کے لکھنے میں کسی نے ان کے ساتھ شراکت کی تھی۔ فرشتہ جس کا نام جبرائیل تھا پڑھ کر ان کو سناتا اور عظیم خدا نے ان کے دل کو قبول کرنے والا کردیا تھا۔ حضرت محمد مصطفٰیؐ وحی کو یاد کرتے تھے اور ہمارے پاس جو قرآن ہے یہ سالوں سے کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہے۔ کیا ایسی کوئی اور کتاب ہے اس دنیا میں جسے آپ جانتے ہوں کہ وہ بغیر کسی تبدیلی کے محفوظ ہو؟ نہیں کوئی کتاب نہیں ۔۔۔ صرف قرآن ہے۔

آپ میرے الفاظو پر مت جائیں! لائبریری جائیں اور پڑہیں انسائیکلوپیڈیا براٹینیکا یا ورلڈ انسائیکلوپیڈیا، یا امریکاناز انسائیکلوپیڈیا یا کوئی دوسرا دنیا کا انسائیکلوپیڈیا جو کہ کسی مسلمان نے نہ لکھا ہو۔ پڑہیں کہ کیا کہتے ہیں اسلام ، قرآن اور محمدؐ کے بارے میں۔ پڑہیں غیر مسلم غوروخوص کے بعد قرآن، اسلام اور محمدؐ کےبارے میں کیا کہتے ہیں۔پھر آپ مان جائیں گے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ دنیا کی دستاویزات میں ہے اور صاف ہے! کہ محمدؐ انسانیت کی تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت ہیں۔ پڑہیں وہ کیا کہتے ہیں کہ قرآن تاریخوں کی تاریخ کا ایک ناقابل یقین اور فکر رکھتا ہے۔ پڑھیں وہ کیا کہتے ہیں کہ اسلامی طرز زندگی علیحدہ ، بہترین اور متحرک زندگی ہے، یہ کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

مقدس صحیفہ جو کہ حضرت محمد مصٖطفٰی کو ملا ‘قرآن’ کہلاتا ہےاور ہر ایک رسول اور پیغمبر نے بھی صحیفے لیے۔ قرآن میں، ان رسولوں کا، ان کے صحیفوں کا ، ان کی کہانیاں اور ان کے کام کے اصولوں کے بارے میں ذکر کیا گیا فکر انگیز تفصیل کے ساتھ۔ کیا محمد ان سے ملے تھے، ان سے باتیں کی تھیں، ان کے ساتھ کھانا کھایا تھا یا وہ شریک ہوئے تھے کہ ان کی سوانح حیات لکھی جائے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ قرآن میں، محمدؐ کا حوالہ عظیم خداکے پیغمبر کی حیثیت سے دیا گیا ہے۔ پچھلے پیغمبروں پر تصدیق کی مہر لگادی ہے – جو کہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے کردار کی حد ہے۔

” (لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد (صلی الہ علیہ وسلم) نہیں لیکن آپ الہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے، اور الہ تعالی ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے”

(قرآن سورۃ نمبر 33، آیت نمبر 40)

مسلمان محمدؐ کی عبادت نہیں کرتے، ہم ‘محمدی’ نہیں ہیں۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم محمدؐ کا نام تبدیل کریں اور ‘محمدی ‘کہلائیں۔ نہیں، لوگ جو موسٰ ی کی پیروی کرتے ہیں کیا وہ ‘موسین ‘تھے۔جو لوگ ‘یعقو ب ‘ کی پیروی کرتے تھے وہ ‘یعقوبین ‘کہلاتے تھے۔ یا ‘ابراہیم ‘کی پیروی کرنے والے ‘ابراہیمین’ تھے یا ‘داؤدین’۔۔۔ نہیں نہیں نہیں۔ تو پھر کیسے لوگ خود کو ‘عیسائی ‘کہلاتے ہیں؟ عیسٰی نے کبھی خود کو ‘عیسائی’ نہیں کہا تو کیسے لوگ خود کو عیسائی کہلواتے ہیں؟

عیسٰ ی نے فرمایا کہ میں نے اپنے عظیم خدا سے جو بھی لیا وہ ایک لفظ خدا تھا اور اس نے وہ سنا ہے جو اس نے کہا!کہ وہی اس نے کیا !تو کیوں لوگ خود کو عیسائی کہلاتے ہیں؟ ہمیں عیسٰ ی کی طرح ہوناپڑے گا اور کیا تھا جوعیسٰی کی طرح تھا؟ وہ ایک عظیم خدا کے خاد م تھے، تو ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی بس عظیم خدا کے خادم بن جائیں۔

آخری صحیفہ اور خدا کی وحی کی حیثیت سے، قرآن میں بہت صاف اور مختصر بیان کیا گیا ہے

“آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا”

(قرآن سورة نمبر 5، آیت نمبر 3)

تو قرآن کے ذریعے لفظ ‘سلام’ آیا۔ کیوں کہ جب عمارت مکمل ہوتی ہےتو آپ اس کو ‘ایک گھر ‘کہتے ہیں۔جب ایک کار بننے کی تیاری میں ہو تو آپ اسے ایک گاڑی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ وہ اپنے بننے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ جب وہ مکمل ہوجاتی ہے، اس کو سند دے دی جاتی ہے، اس گاڑی کو چلاکر معائنہ کیا جاتا ہے، تب یہ گاڑی ہوتی ہے۔ جب اسلام مکمل ہوا تھا جیسے وحی مکمل ہوئی، جیسے ایک کتاب مکمل ہوئی ، جیسےمحمدؐ کی زندگی جو نمونہ تھی مکمل ہوئی پھر یہ اسلام بنا۔ یہ ایک مکمل زندگی کا راستہ ہوا ۔

تو یہ لفظ ہے جو کہ نیا تھا لیکن عمل میں نہیں تھا ۔۔۔ نہ تو رسول ۔۔۔ خدا کا حکم نہیں تھا ۔۔۔ نہ ایک نیا خدا ۔۔۔ نہ ہی نئی وحی ۔۔۔ لیکن صرف ایک نام،اسلام اور جیسے میں نے پہلے کہا تمام پیغمبر کون تھے؟ وہ سب مسلمان تھے۔ ایک اور انفرادیت محمدؐ کے بارے میں اپنے ذہنوں میں رکھیں جو کہ ان کو نمایا ں کرتی ہےکہ پچھلے تمام رسولوں کی طرح وہ صرف عرب کے لیے نہیں آئے تھے یا صرف اپنے لوگوں کے لئے نہیں، نہیں ۔۔۔ بہرحال، اسلام عرب کا ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ، عبدالہ کے بیٹے پیغمبر اسلام محمدؐ مکہ میں پیدا ہوئے جو کہ جزیرہ نما عرب ہے اور وہ پیدائشی عربی تھے، وہ اسلام صرف عربوں کے لئے نہیں لے کر آئے تھے بلکہ اسلام تمام انسانوں کے لیے لائے تھے ۔

حالانکہ قرآن عربی زبان میں اتارا گیا ، جو اس حق کو یا دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ محمدؐ کا پیغام محدود یا یہ صرف عربوں کے لئے تھا۔ قرآن مجید میں الہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ

” اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے “

(قرآن سورۃ نمبر 21: آیت نمبر 107)

لہٰذا محمدؐ آخری اور تاج ہیں آپ سے پہلے رسولوں اور پیغمبروں کے، بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے۔

اور جب سے میں اپنی اس پریزینٹیشن کی مدد کے لئے قرآن پاک کے حوالے دے رہا ہوں، اب میں آپ کو خود قرآن کے پس منظر کے بارے میں بتاؤں گا۔ پہلی بات تو یہ کہ قرآن دعوٰہ کرتا ہے کہ یہ مجموعہ ہے الہ کی طرف سے بھیجی گئی وحی کا۔ اس کا مطلب ہے کہ قرآن عظیم خدا کی طرف سے محمدؐ پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔

الہ تعالٰی فرماتے ہیں

“اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے”

(قرآن سورۃ نمبر 53، آیات نمبر 3 سے 4)

محمدؐ خود کچھ بھی نہ تو کہتے ہیں ، ان کے خیالات ، ان کی خواہش یا ان کے جذبات اور احساس بھی ان کے اپنے نہیں ہیں۔ لیکن وہ ایک وحی ہیں جو کہ ان پر ہی ظاہر ہوتی ہے! یہی الہ تعالٰی قرآن پاک میں فرماتا ہے۔ لہٰذا اگر میں آپ کو قرآن کی تصدیق کرنے کے لئے قائل کروں ، جو کہ میں لازمی کروں گا – پہلی بات یہ کہ یہ نا ممکن ہے کہ محمدؐ خود سے اس طرح کی کوئی کتاب بنا سکیں۔ دوسرا یہ کہ میں یہ ثابت کروں گا کہ اسی طرح کسی انسانوں کی جماعت کے لئے بھی یہ نہ ممکن تھا کہ وہ اس کو بناسکتے۔ آئیے ہم ذرا اس بارے میں سوچتے ہیں۔

قرآن پاک میں بیان ہے کہ

“اور ہم نے انسانوں کو پیدا کیا نطفے سے پیدا کیاجو کہ رحم کی دیواروں سے جم جاتا ہے۔”

(قرآن سورۃ نمبر 23، آیت نمبر 14)

” جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا”

(قرآن سورۃ نمبر 96، آیت نمبر 2)

کیسے محمدؐ نے جاننا کہ لوتھڑا ایک نطفہ سے بنتا ہے اور ماں کے رحم کی دیواروں سے چپک جاتا ہےَ؟کیا ان کے پاس ٹیلی اسکوپ تھی؟ کیا ان کے پاس سائس اسکوپ تھی؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسی چیز تھی جو ایکسرے کی طرح کام کرتی تھی؟ کیا انہوں نے اس بارے میں کہیں سے علم حاصل کیا تھا، جو کہ ابھی سینتالیس (47) سال پہلے دریافت ہوا ہے؟

اسی طرح ، وہ کیسے جانتے تھے کہ سمندر وں کے درمیان رکاوٹ ہے جو نمکین پانی کو تازہ پانی کو علیحدہ کرتی ہے؟

“اور وہی ہے جس نے دو سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا، اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط رکاوٹ کردی”

(قرآن سورۃ نمبر 25، آیت نمبر 53)

وہ یہ کیسے جانتے تھے؟

” وہی الہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں”

(قرآن سورۃ نمبر 21، آیت نمبر 33)

وہ کیسے جانتے تھے کہ سورج، چاند اور سیارے سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے ہیں جیسے انہیں یہ کرنے کے لئے کسی نے حکم دیا ہو؟ وه یہ کیسے جانتے تھے؟ اور بہت ، بہت اور بہت۔ کیسے وه یہ سب جانتے تھے؟ یہ سب چیزیں پچیس (25) یا تیس (30) سال پہلے دریافت ہوئی ہیں۔ ٹیکنالوجی اور سائنس، ان میں جدت ہم سب جانتے ہیں اب دریافت ہوئیں ہیں۔ محمدؐ و جو کہ 1500 سال پہلے ایک ان پڑھ چرواہے جو کہ ریگستان میں بڑھے ہوئے، پڑہنے اور لکھنے سے ناواقف کیسے وه یہ سب جان سکتے تھے؟ کیسے انہوں نے اس طرح )قرآن( کو بنایا ؟ اور کیسے کوئی اور ان کے ساتھ رہنے والوں میں سے، ان سے پہلے رہنے والوں میں سے اور ان کے بعد آنے والوں میں سے کسی نے دریافت نہ کیا ، جو اب دریافت ہورہا ہے؟ یہ نہ ممکن ہے! کیسے ایک شخص جو کہ جزیرہ نما عرب سے باہر نہ گیا ہو، نہ کبھی پانی کے جہاز پر سفر کیا ہو، جو کہ 1500 سال پہلے تھا اس نے بتائیں اتنی صاف اور حیرت انگیز باتیں جو کہ اب 20 ویں صدی کے آخری نصف حصے میں دریافت ہو رہی ہیں؟

مزید، اگر یہ سب کافی نہیں ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن پاک کی 140 سورتیں (باب) ہیں، چھ ہزار سے زیادہ آیات ہیں۔ اور محمدؐ کے دور میں بھی سینکڑوں ایسے لوگ تھے جنہوں نے قرآن پاک کو زبانی یاد کیا ہوا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا وہ کسی قسم کے ذہین تھے؟ کیا کسی نےگوسپل کو زبانی یاد کی ہے ؟ – کیا آپ میں سے کسی نے؟ کیا کسی نے تورات کو یا زبور کو یاد کیا پرانے عہدنامے یا نئے عہدنامے کو زبانی یاد کیا؟ کسی نے نہیں کیا یہاں تک کہ پاپ نے بھی نہیں کیا۔

لیکن یہاں آج بھی کروڑوں مسلمان ہیں جو پوری کتاب کو زبانی یاد کرتے ہیں یہی ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے ، کچھ کی نہیں بلکہ سب کی! کتنے عیسائی ایسے جو آپ کو آپ کی زندگی میں ملے ہوں گے جنہوں نے انجیل زبانی یاد کی ہو؟ کوئی نہیں۔ آپ کبھی کسی ایسے عیسائی سے ملے جس نے پوری انجیل یاد کی ہو ، کیوں کہ آپ کبھی ایسے عیسائی سے ہی نہیں ملے جو پوری انجیل کو جانتا ہو۔ یہ کیوں ہے؟ کیوں کہ عیسائیوں میں خود سات سو سے زیادہ فرقے ہیں اور تقریباً انتالیس (39) مختلف کتابیں ہیں انجیل کی پھر اور مختلف کتابوں پر کتابیں ۔ مختلف تعداد میں باب اورمختلف ان کی آیاتوں کی تعداد اور وہ ان کو مانتے بھی نہیں۔ جب وہ ان کو مانتے ہی نہیں ہیں تو کیسےوہ اس کو زبانی یاد کرسکتے ہیں۔

یہ کچھ حقیقت ہے قرآن کے بارے میں۔ قرآن پوری دنیا میں بغیر کسی معمولی سی تبدیلی کے پندرہ سو سالوں سے محفوظ ہے۔ اور میں مذمت کرنے کے انداز میں نہیں کہہ رہا۔ میں ایک شخص ہوں جو ایک عیسائی تھا۔ ایک شخص جس نے اپنی تحقیق سے یہ سب چیزیں پائیں۔ ایک شخص جواب آپ کے ساتھ یہ معلوما ت پہنچا رہا ہے۔ کچھ پتھروں کو پلٹ کر آپ کو اس کے اندر دیکھانے کے لئے اور باقی آپ پر ہے!

صرف آپ اتنا سوچئے اگر یہ سب سچ ہو۔ تو آپ ماننے گے کہ یہ کتاب واقعی غور و فکر والی ہے؟ اور کم از کم اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ منفرد ہے؟ کیا آپ اتنا سچا بننا چاہتے ہیں کہ یہ کہہ سکیں؟ یقیناً آپ چاہیں گے، اگر آپ سچے تھے اور آپ سچے ہوں۔ آپ اپنے آپ میں دیکھئے آپ کو ان باتوں کو آخر کار ماننا پڑے گا۔ بہت سے دوسرے غیر مسلم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ۔ جن میں بینج من فرینکلن، تھامس جیفرسن، نپولین بوناپارٹ اور ونسٹن چرچل جیسے صرف چند نام ہیں اور بہت سے ہیں اگر میں بتا ؤ تو بتاتا چلا جاؤ یہ سب اسی نتیجے پر پہنچے – یہ اور بات ہے کہ انہوں نے کھلے عام اسلام قبول کیا یا نہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس دنیا میں کوئی دوسرا ادب نہیں جس میں اتنا غور و فکر ہو جتنا کہ قرآن میں ہےیہ ایک ذریعہ ہے حکمت کا، صبر کا اور رہنمائی کا۔

اب، ہم نے قرآن کی صداقت کے بارے میں بات کرلی، اب ہم دوسرے نقطہ پر بات کرتے ہیں قرآن کی بنیادی مضامین۔ عظیم خدا کی وحدانیت، جو کہ اس کے نام میں ، اس کے اوصاف میں، عظیم خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان تعلق میں، کیسے انسانوں کو اس تعلق کو قائم رکھنے میں شامل ہے۔ رسولوں اور پیغمبروں کا سلسلہ، ان کی زندگیاں، ان کے پیغامات اور ان کا تمام کام جو انہوں کیا ۔ ان کا اصرار کہ یہ پیروی کریں محمدؐ کی جو کہ رسولوں اور پیغمبروں میں آخری اور کائنات کے لیے ایک مثال ہیں۔ لوگوں کو یاد دہانی کہ ان کی زندگی بہت مختصر ہےاور ان کو بلایا جائے وہاں ہمیشہ کی زندگی کے لیے۔ زندگی اس کے بعد کا مطلب اس کے بعد کی زندگی۔ اس کے بعد، آپ یہ جگہ چھوڑ جاؤ گے اور کہیں اور چلے جاؤ گے۔ اس کا مطلب آج رات نہیں لیکن مرنے کے بعد آپ اس زمین کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جاؤ گے بے شک آپ مانو یا اس بار ے میں نہیں جانتے۔ آپ نے وہاں جانا ہے، آپ ذمہ دار ہیں کیوں کہ آپ کو بتادیا گیا ہے یہاں تک کہ آپ اسے مسترد کردو۔ کیوں کہ زندگی کا مقصد آپ کے لئے یہ نہیں ہے کہ یہاں بیٹھے رہو، کچھ نہ کرو اور آپ پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ ہر وجہ کا اثر ہوتا ہے اور آپ اس زندگی میں آئے ایک وجہ سے، ایک مقصد کے لئے تو اثر تو لازمی پڑے گا کچھ کرنے کا کسی قسم کا اثر تو لازمی ہوگا۔ آپ اسکول نہیں جائیں تو آپ ٹھہرے رہیں گے! آپ کام پر نہیں جائیں تو معاوضہ بھی نہیں ملے گا! آپ گھر نہ بنائیں گے تو آپ اس کے اندر جا بھی نہیں سکتے! لباس نہیں بنوائیں گے تو پہنیں گے بھی نہیں! آپ بڑھے نہ ہو بچوں کے جیسے تو بالغ بھی نہ ہوں گے!آپ کوئی بھی کام بغیر اس کے ممکنہ انعام کے نہیں کرتے! آپ نہیں جی سکتے بغیر مرنے کی سوچ کے! آپ مر نہیں سکتے بغیر قبر کے امکان پر اور آپ یہ خیال نہیں کرسکتے کہ قبر اختتام ہے۔ کیوں کہ اس کا مطلب ہو گا کہ خدا نے آپ کو بیوقوفانہ مقصد کے لیے تخلیق کیا تھا۔ اور آپ اسکول نہیں جاتے ، کام نہیں کرتےیا کچھ نہیں کرتے یا بیوی پسند نہیں کرتےیا بچوں کے نام بیوقوفانہ مقصد کے لئے چنتےہو۔ کیسے آپ خدا کواپنے سے کم سمجھ سکتے ہو؟

متوجہ کرنے تصور سے قائل کرنےاور غور و فکر کے قابل کرنے کے لئے قرآن بہت گہرائی میں اور بڑے خوبصور ت انداز میں وضاحت کرتا ہے سمندروں اور دریاؤں کی، درختوں اور پودوں کی، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی، جنگلی اور پالتو جانوروں کی، پہاڑوں، وادیوں، جنت کے وسیع و عریض ہونے کی، فرشتوں اور کائنات کی، مچھلیوں اور پانی کی مخلوق کی، انسانی اعضاء اور علم نباتات کی، انسانی معاشرے اور تاریخ، انسانی پیدائش کے عمل کی، تفصیل جنت اور دوزخ کی، انسانی افزائش کی، تمام رسولوں اور پیغمبروں کے کام کی، زمین پر زندگی کے مقصد کی۔ تو کیسے ایک چرواہا لڑکا، ریگستان میں پیدا ہونے والا، جوبغیر پڑھے لکھے بڑھا ہوا اور پڑھ نہیں سکتا – کیسے وہ ان سب چیزوں کی وضاحت کرسکتا ہے جن کا کبھی اس پر انکشاف ہی نہیں ہوا تھا ۔

بہرحال سب سے زیادہ منفرد چیز جو قرآن کی ہے کہ تمام پچھلی مقدس کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ دین اسلام کا اچھی طرح جائزہ لے کر آپ کو فیصلہ کرنا چاہیئے کہ آپ مسلمان ہو ں، آپ اپنے آپ سے یہ نہ سوچیں کہ آپ مذہب بدل رہیں ہیں! آپ اپنا مذہب نہیں بدل رہے ہیں۔ آپ دیکھئے، اگر آپ کا وزن کم ہو جائے تو آپ اپنا 500 ڈالر کا لباس نہیں پھینکنا چاہیں گے، یقیناً نہیں!آپ اسے درزی کے پاس لے کر جائیں گےاور کہیں گے کہ سنو ، برائےمہربانی! اسے میرے لیے تھوڑا سا چھوٹا کر دو! آپ اس میں کچھ صحیح کرائیں گے کیوں کہ یہ لباس آپ کو پسند ہے۔ اسی طرح اپنے ایمان کے، عزت کے ، پاکیزگی کے، عیسٰی کی محبت کے، آپ کے خدا سے تعلق کے ساتھ، آپ کی عبادت، آپ کی سچائی اور آپ کی عظیم خدا کے وقف ہونے کے ساتھ اسے تبدیل نہ کریں کہ اسے چھوڑ دیں! آپ اس پر قائم رہیں! لیکن خود کی تصحیح کریں جہاں آپ جانتے ہیں کہ سچ آپ کو معلوم ہو گیا ہے! یہی سب کچھ ہے۔

اسلام سادہ ہے: صرف گواہی دیتا ہے کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے عظیم خدا کے۔ اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کے والد آپ کے والد ہیں – آپ میں سے کتنے کہیں گے کہ ہاں، میرے والد میرے والد ہیں۔ میرا بیٹا میرا بیٹا ہے، میری بیوی میری بیوی ہے، میں ہوں جو میں ہوں۔ تو پھر کیسے ہے یہ کہ آپ اس بات کی گواہی دیتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ عظیم خدا تمہارا مالک اور تمہارا خالق ہے؟ کیوں آپ غرور کرتے ہیں ایسا کرنے میں ؟ کیا آپ عظمت والے ہیں؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو خدا کے پاس نہیں ہے؟یا کیاآپ الجھے ہوئے ہیں؟ یہ سوالات ہیں جو آپ خود سے کریں۔

اگر آپ کے پاس موقع ہوتا کہ آپ چیزیں صحیح رکھیں اپنے شعور سے اورپھر خدا کے ساتھ چیزیں صحیح رکھیں، کیا آپ کو ایسا کرنا چاہیئے؟ اگر آپ کو موقع ملتا تو آپ پوچھتے خدا سے کے میرا جو سب سے بہترین کام ہے آپ اس کو قبول کریں، کیا آپ کو ایسا کرنا چاہیئے ؟ اگر آپ کو ایسا موقع ملے آپ کے مرنے سے پہلے اور آپ سمجھیں کہ آپ آج رات کو مر سکتے ہیں تو کیا آپ کو کوئی تردد نہیں ہونا چاہیئے اس بات کی گواہی دینے میں کہ الہ ایک ہے؟ اگر آپ سمجھیں کہ آپ آج رات کو انتقال کر جائیں گے اور آپ کے سامنے جنت ہو ا اور پیچھے دوزخ کی آگ، کیا آپ اب بھی ہچکچائیں گے اس بات کی گواہی دینے سے کہ محمدؐ خدا کے آخری پیغمبر اور تمام رسولوں کے نمائندے ہیں؟ آپ کو ہچکچانا نہیں چاہیئے اس بات کی گواہی دینے سے کہ آپ بھی ان بہت سے لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جو الہ کی کتاب میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں۔

لیکن، آپ سوچ رہے ہیں کہ آپ تھوڑی زندگی اور جینا چاہتے ہیں اور یقیناً، آپ ابھی تیار نہیں ہیں کہ روز عبادت کی جائے! اس لئے کہ آپ سوچتے ہیں کہ تھوڑی زندگی کو ایسے ہی گزارا جائے۔ لیکن کب تک تھوڑی تھوڑی زندگی گزاریں گے؟کتنا عرصہ ہوگیا جب کہ آپ کا سر بالوں سے بھرا ہوا تھا؟ کتنا عرصہ ہوگیا جب کہ آپ کے بال کالے تھے؟ آپ کے گھتنوں، کہنیوں اور دوسرے حصوں میں درد رہنے لگا ! کتنا عرصہ ہوگیا جب کہ آپ بچے تھے، بغیر کسی احتیاط کے بھاگتے تھے، کھیلتے تھے ؟ کتنا عرصہ ہوگیا ان کو؟ یہ کل ہی تو تھا! ہاں۔ اور کل آپ نے مر جانا ہے تو کتنا عرصہ آپ انتظار کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام اعتراف ہے کہ عظیم خدا ہی خدا ہے صرف ایک خدا بغیر کسی شراکت کے۔ اسلام اعتراف ہے کہ فرشتے ہیں جو کہ ذمہ داری کے ساتھ پیغمبروں کے پاس وحی لے کر بھیجے جاتے ہیں وہ لے کر آتے ہیں پیغام رسولوں کے لئے، وہ ہواؤں ، پہاڑوں کو، سمندروں کو قابو میں کرتے ہیں اور جان نکالتے جن کے لیے خدا حکم دیتا ہے۔ اسلام اعتراف ہے کہ تمام عظیم خدا کے رسول اور پیغمبر سچے تھے۔ اور وہ سب عظیم خدا کی طرف سے اس حقیقت کا اعتراف کرانے کے لیے بھیجے گئے تھے کہ ایک فیصلے کا دن تمام مخلوقات کے لئے آئے گا۔ اسلام اعتراف ہے کہ تمام اچھائیوں اور برائیوں کا عظیم خدا حساب لےگے۔ آخر میں ، اسلام اعتراف ہے کہ اس پر ایمان ہونا کہ ہمیں مرنے کے بعد پھر زندہ ہوناہے۔

ہر مسلمان پر بنیادی ذمہ داری جو عائد ہوتی ہو بہت سادہ ہیں۔ حقیقت میں صرف پانچ (5) چیزیں ہیں۔ اسلام ایک بڑے گھر کی طرح ہے۔ اور ہر گھر کی بنیاد اور ستون ہوتے ہیں جو گھر کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ستون اور بنیاد اور آپ کو گھر اصولوں کے ساتھ بنانا پڑے گا۔ ستون ہیں وہ اصول ۔ اور جب آپ گھر بناتے ہیں تو ان لازمی اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ سب سے اہم اصول اسلام کا عقیدہ توحید کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ کہ الہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ الہ کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرو۔ خدا سے کچھ ایسا نہ کہو جس کے کہنے کا آپ کو حق نہیں ہے، یہ نہ کہو کہ وہ (خدا) ایک باپ ہے، ایک بیٹا، ایک بیٹی، ایک ماں، ایک چچا، ایک خالہ، ایک ٹرسٹ کا بورڈ ہے۔ خدا سے کچھ ایسا نہ کہو جس کے کہنے کا آپ کو حق نہیں ہے، جب آپ گواہی دیتے ہیں تو سزاوار بھی آپ خود ہیں۔ جو چاہیئں وہ سزا پائیں۔ آپ چاہیں تو اپنے لئے امن اور جنت کی سزا لیں یا آپ چاہیں تو الجھن، دباؤ، دوزخ کی آگ اور جسمانی سزا پائیں۔ آپ کی سزا آپ کی ہے۔

تو اپنے آپ سے پوچھئے “کہ کیا آپ گواہی دیں گے کہ خدا صرف ایک ہے؟” جب آپ خود سے یہ سوال پوچھیں گے تو آپ کو جواب ملنا چاہئیے “ہاں”، میں گواہی دیتا ہوں”۔ پھر آپ خود سے پوچھیں اگلا سوال کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ عظیم خدا کے پیغمبر ہیں؟ “ہاں، میں گواہی دیتا ہوں”۔ اگر آپ یہ گواہی دیتے ہیں تو آپ مسلمان ہیں اور آپ کو خود کو تبدیل نہیں کرنا پڑے گا ۔ صرف اپنے آ پ کی اصلاح کرنا ہو گی اپنی سوچ میں اور اپنے عمل میں۔

آخر میں ، میں آپ سے سچ اور براہ راست سوال کرتا ہوں کہ: کیا آپ سمجھے جو میں نے آپ سے کہا؟ اگر آپ اس کو مانتے ہیں جو میں نے کہا اور اسلام میں داخل ہونے اورمسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ تو مسلمان ہونے کہ لیے آپ کو لازمی ہے کہ کلمہ شہادت کا اعلان کریں ؛ جو کہ اعلان ہے کہ میں ایمان لایا خدا کے ایک ہونے پر اور قبول کیاکہ محمدؐ کے خدا کے رسول ہیں۔

لا الہ إلا الہ محمد رسول الہ
نہیں کوئی معبود سوائے الہ کے اور محمدؐ الہ کے رسول ہیں

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا صرف ایک ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ الہ کے پیغمبر ہیں۔

صحیح تلفظ کے لیے ویڈیو ملاحظہ کریں!!

الہ ہم سب پر رحم کرے اور ہماری رہنمائی کرے۔ میں تمام غیرمسلموں کو – جو اس اشاعت کو پڑھ رہے ہوں کہتاہوں کہ ، خود سے سچے ہوں۔ جو آپ نے پڑھا ہے اس کے بارے میں سوچئیے۔ اس معلومات کو اپنے پاس رکھئیے اور خود میں جذب کر لیں۔ کسی مسلمان کے ساتھ بیٹھیں اور اسلام کی خوبصورتی کے بارے میں اس سے کچھ اور تفصیل معلوم کریں ۔ اگلا قدم بڑھائیں!

جب آپ اسلام قبول کرنے کے لیے اور مسلمان ہونے کے لیے تیار ہو جائیں،تو باقاعدہ مسلمان ہونے سے پہلے خود کو دھولیں۔ اسلام قبول کریں۔ اسلام کے بارے میں جانیں اس پر عمل کریں اور خدا کی عطا کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہوں کیوں کہ ایمان سب کچھ نہیں ہے کہ جس سے آپ بخشے جائیں۔ اگر آپ اس پر عمل نہیں کریں گے تو آپ اس کی خوشبو کھو دیں گے۔ اے الہ ہماری رہنمائی فرما ۔ اے الہ ہماری مدد فرما اور میں سراہتا ہوں آپ کو اس اعزاز کا جو مجھے بخشا گیا اور مجھے بولنے کا موقع فراہم کیا گیا اس اشاعت کے ذریعے ۔

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الهِ وَبَرَكَاتُهُ
(ترجمہ : آپ سب پر الہ کی سلامتی ہو، رحمتیں ہوں اور برکتیں ہوں)

اگر آپ مسلمان ہونا چاہتے ہیں یا آپ کو اسلام کے بارے میں مزید معلومات چاہیئے، برائے مہربانی ہمیں ای میل کریں info@islamicbulletin.org.


منظر / پلٹ کی کتاب میں یہ مضمون پرنٹ کریں

کس طرح ایک مسلمان بن گیا ویڈیو